اسلام آباد۔22ستمبر (اے پی پی):قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں رہائش پذیر خاندانوں کو فوری نقد امداد فراہم کرنے کے لئے ایک پائلٹ منصوبہ تجویز کیا گیا ہے جس کے تحت نیشنل کیٹاسٹروفی (نیٹ کیٹ) ماڈل کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے ساتھ منسلک کیا جائے گا۔ویلتھ پاکستان کی جانب سے سرکاری دستاویزات کے حوالہ سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق یہ اقدام ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد ایک شاک رسپانسیو سوشل پروٹیکشن فریم ورک تیار کرنا ہے تاکہ سیلاب یا دیگر قدرتی آفات کی صورت میں فوری طور پر متاثرہ خاندانوں کو امداد پہنچائی جا سکے۔
اس منصوبے کا ہدف پاکستان کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ نظام کو مضبوط بنانا اور ضرورت مند گھرانوں تک بروقت نقد رقوم پہنچانا ہے۔منصوبے کے تحت نیٹ کیٹ ماڈل کی تمام صلاحیتوں کو بی آئی ایس پی کے ادائیگی نظام کے ساتھ مربوط کیا جائے گا تاکہ حقیقی وقت میں رقوم کی ترسیل ممکن ہو سکے۔ ابتدائی طور پر اس پائلٹ پروگرام کو سیلاب سے زیادہ متاثر ہونے والے مخصوص اضلاع میں نافذ کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور اس دوران حاصل ہونے والے تجربات کو قومی سطح پر توسیع کے ڈیزائن میں شامل کیا جائے گا۔
اس منصوبے کی ایک نمایاں خصوصیت ’’شاک رسپانس میٹرکس‘‘ کی تیاری ہے، جس میں مختلف سٹیک ہولڈرز کے کردار، مداخلت کے اوقات کار اور مالی و افرادی وسائل کی تقسیم واضح کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی ایک ریئل ٹائم مانیٹرنگ ڈیش بورڈ بھی بنایا جائے گا جس کے ذریعے پارلیمنٹ براہ راست ادائیگیوں کی نگرانی کر سکے گی تاکہ ہنگامی امداد میں شفافیت اور جوابدہی یقینی بنائی جا سکے۔
یاد رہے کہ 2024 میں نیشنل ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ فنڈ (این ڈی آر ایم ایف) نے اسپیس اینڈ اپر ایٹماسفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) کے ساتھ شراکت داری اور ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی تکنیکی معاونت سے نیٹ کیٹ ماڈل تیار کیا تھا۔ یہ ماڈل سائنسی اور شواہد پر مبنی تجزیات فراہم کرتا ہے جو ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ، ماحولیاتی تبدیلیوں سے مطابقت، اور ڈیزاسٹر رسک فنانسنگ کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔
بی آئی ایس پی کی چیئرپرسن سینیٹر روبینہ خالد نے ’’ویلتھ پاکستان‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قدرتی آفات کے لئے ادارہ جاتی تیاری ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس پہلے ہی مضبوط ادارے موجود ہیں، تاہم حالیہ سیلابی تباہ کاریوں نے واضح کیا کہ ایک مربوط اور پیشگی منصوبہ بندی پر مبنی نظام کی ضرورت ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ ایک تکنیکی گروپ تشکیل دیا جائے جس میں بی آئی ایس پی، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز (پی ڈی ایم ایز)، وزارت موسمیاتی تبدیلی اور محکمہ موسمیات سمیت تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہوں۔ یہ گروپ وفاقی، صوبائی اور علاقائی سطح پر کام کرے اور آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور ضم شدہ اضلاع کو بھی کور کرے۔
سینیٹر روبینہ خالد نے مزید کہا کہ بین الاقوامی تجربہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ قدرتی آفات کے دوران امدادی اقدامات اس وقت زیادہ مؤثر ہوتے ہیں جب پہلے سے مالیاتی انتظامات اور ادارہ جاتی ہم آہنگی موجود ہو۔ ان کے مطابق نیٹ کیٹ اور بی آئی ایس پی کے انضمام سے پاکستان ایک ایسا نظام تشکیل دے سکے گا جو اس کی مقامی ضروریات اور کمزوریوں کے مطابق ہو۔
دستاویزات کے مطابق مالی سال 2024-25 کے ابتدائی نو ماہ میں بی آئی ایس پی نے تقریباً 9.87 ملین گھرانوں کو 385.6 ارب روپے کی ادائیگیاں کیں، جو اس پروگرام کی وسیع آپریشنل صلاحیت اور بڑے پیمانے پر مالی امداد پہنچانے کی استعداد کو ظاہر کرتا ہے۔
اسی دوران حکومت کے ’’پاورٹی ریڈکشن سٹریٹیجی پیپر‘‘ (پی آر ایس پی) کے تحت جولائی تا مارچ مالی سال 25 کے دوران مجموعی اخراجات 4.25 کھرب روپے رہے جو کہ ملکی جی ڈی پی کا 3.43 فیصد بنتے ہیں۔ یہ اخراجات سماجی تحفظ، صحت، تعلیم، فلاح و بہبود اور قانون و انصاف جیسے شعبوں میں کیے گئے، جو اس بات کا عکاس ہیں کہ ریاست ترقی کے ساتھ ساتھ آفات سے بچاؤ اور لچک پیدا کرنے پر بھی بھرپور توجہ دے رہی ہے۔