کیپٹیو پاور یونٹس کی کارکردگی جانچنے کے لیے آڈٹ کیا جائے، ماہرین
اسلام آباد، 3 دسمبر 2024: توانائی کے ماہرین نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ کیپٹیو پاور پلانٹس (سی پی پیز) کو فوری طور پر گرڈ سسٹم میں منتقل کرنے میں سہولت فراہم کرے۔ اس اقدام سے نہ صرف ملک میں بجلی کی طلب میں اضافہ ہوگا بلکہ بڑی مقدار میں قدرتی گیس بھی توانائی کے شعبے کے لیے دستیاب ہوگی، جو 2005 کی نیشنل گیس ایلوکیشن پالیسی اور 2024 میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کی گیس سپلائی ترجیحات کے مطابق ہوگا۔ ماہرین نے سی پی پیز کی کارکردگی کی اصل سطح جانچنے کے لیے تفصیلی آڈٹ پر بھی زور دیا ہے۔
یہ تجاویز انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کے زیرِ اہتمام سیمینار ”Energy priorities in crisis: Navigating gas supply cuts to captive power plants in Pakistan” کے دوران پیش کی گئیں۔ اس سیشن کا مقصد حکومت کی جانب سے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ کی گئی اس یقین دہانی کا تجزیہ کرنا تھا جس میں کیپٹیو پاور پلانٹس کے لیے گیس کی سپلائی کو ختم کرنے کا عزم کیا گیا ہے تاکہ توانائی کے وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال جا سکے۔
ریسرچ فیلو ولی فاروقی نے اپنے خطاب میں بتایا کہ ملک میں اس وقت تقریباً 1,180 کیپٹیو یونٹس ہیں جو 358 ایم ایم سی ایف ڈی گیس استعمال کر رہے ہیں، جبکہ تقریباً 4 لاکھ صنعتی صارفین گرڈ پر انحصار کرتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ اگر صنعتیں جو کپٹو پاور پلانٹس پر ہیں اگر گرڈ سسٹم پر منتقل ہوجائیں تو اس کے فوائد بے شمار ہوں گے، جن میں قدرتی گیس کی رسائی کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں کمی، بجلی کی طلب میں اضافہ اور کپیسٹی پیمینٹس میں کمی، گردشی قرضوں میں کمی اور ڈسکوز کے آمدنی میں اضافہ شامل ہیں۔
ڈائریکٹر انرجی بزنس ٹیکنالوجی سولوشن پروائیڈر بلال اے شیخ نے کہا کہ زیادہ تر کیپٹیو پاور پلانٹس میں گیس کے استعمال کی کارکردگی نچلی سطح پر ہے، حالانکہ اسے غلط طور پر 60-65 فیصد کے قریب دکھایا جاتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ گیس کو گرڈ پاور پلانٹس میں منتقل کیا جائے تو نہ صرف بجلی کے نظام میں استحکام پیدا ہوگا بلکہ کوئی مالی نقصان بھی نہیں ہوگا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ہم ان کیپٹیو یونٹس کو گیس فراہم کرتے رہے تو ہم ملک میں گرڈ سسٹم کے استحکام کو نقصان پہنچائیں گے۔ انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ بنیادی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی فیصلے نہیں کیے جا رہے ہیں اور ملک میں ڈیٹا کہ بھی فقدان ہے۔
امریلی اسٹیلز کے انرجی اینڈ سسٹینبیلٹی کے سربراہ ابو بکر نے کہا کہ پاکستان میں پالیسی سازی کا سب سے بڑا مسئلہ اس کی بروقت ترمیم نہ کرنا ہے اور گرڈ کوترجیح دینے کے بجائے کپٹو یونٹس کو گیس کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پالیسی سازوں نے نہ تو گیس کے لیے اور نہ ہی بجلی کے لیے مناسب مارکیٹ بنائی جس نے ان چیلنجوں کو بڑھا دیا۔ ابوبکر نے مزید کہا کہ انڈسٹری کو درپیش سب سے بڑا چیلنج گرڈ کی زیادہ لاگت ہے، اگر کیپٹیو یونٹس کے بجائے گرڈ میں گیس کی فراہمی ہوتی تو بجلی کی قیمت ایک حد تک متوازن ہوجاتی۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ سب سے پہلے گرڈ لاگت کو کم کرنے کی ضرورت ہے اور صحیح قیمت پر توانائی کے لیے مناسب مارکیٹیں قائم کی جائیں۔
معروف صنعتکار ریحان جاوید نے پاکستان کے گرڈ کوڈ کی تعریف کی جس میں صرف 5 فیصد فلکچوئیشن کی اجازت دی جاتی ہے، جبکہ دنیا کے دیگر حصوں جیسے جرمنی میں فلکچوئیشن کی اجازت 10فیصد تک ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پی پیز اپنی کم کارکردگی کے باوجود زیادہ وسائل استعمال کرتے ہیں اور ان کے 72 فیصد کارکردگی کے دعوے غیر تصدیق شدہ ہیں، کیونکہ انہوں نے آڈٹ میں مزاحمت کی اور ماضی میں گیس کی قیمتوں میں اضافے پر اسٹے آرڈرز حاصل کیے تھے، اور آڈٹ کی شق کو ختم کرنے کے لیے لابنگ کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی پی پیز کی وجہ سے صنعتی شعبے پر مالی بوجھ پڑ رہا ہے، جس کی وجہ سے 5 روپے فی یونٹ تک کے کیپیسٹی چارجز ہیں جو دوسرے تمام نان-پروٹیکٹڈ گرڈ صارفین پر پڑ رہے ہیں، جس سے ان کی لاگت بڑھ رہی ہے، اور اس کے نتیجے میں 295 ارب روپے کے سالانہ کیپیسٹی چارجز گرڈ صارفین کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ ان نا کاریوں کو حل کرنے کے لیے ریحان جاوید نے تجویز دی کہ سی پی پیز کو عارضی چھوٹ دینے کے ذریعے گرڈ میں منتقلی کی ترغیب دی جائے اور موثر پلانٹس کو میرٹ آرڈر میں آگے بڑھایا جائے تاکہ وسائل کا بہترین استعمال ہو سکے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2013 سے سی پی پیز گیس کی قیمتوں میں اضافے اور غیر موثر آپریشنز کی وجہ سے توانائی کے نقصانات میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ جاوید نے مزید کہا کہ جب مجموعی کارکردگی کا حساب لگایا جا رہا تھا تو کچھ کاپٹیو مالکان بھاپ اور بجلی دونوں کو حساب میں لے کر غلط طریقے سے کارکردگی کا دعویٰ کر رہے تھے، جو کہ ایک غلط نقطہ نظر ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے دعوے گمراہ کن ہیں، کیونکہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ اضافی بجلی ہے، اور سستی بھاپ پیدا کرنے کے لیے بایوماس اور کوئلے جیسے کئی متبادل طریقے موجود ہیں۔
توانائی کے ماہر اسد محمود نے توانائی کے انتظام اور پالیسیوں کو بڑھانے کے لیے حکومتی محکموں کے درمیان رابطوں کو بہتر بنانے کی اہمیت کو اجاگر کیا تاکہ توانائی کے انتظام اور پالیسیوں کو حقائق کے مطابق بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ کیپٹیو پاور پلانٹس صنعتی شعبے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن توانائی کے متوازن منظرنامے کے لیے مزید گرڈ پر انحصار کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر صنعتوں کو بلا تعطل اور اعلیٰ معیار کی بجلی کی ضمانت دی جائے تو وہ گرڈ کو ترجیح دیں گی، جس سے کپیسیٹی پیمنٹس کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے بروقت توانائی کے آڈٹس، بہتر ڈیٹا جمع کرنے، اورپروڈکٹیویٹی ہینڈ بکس کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے اور صنعتوں کے لیے فائدہ مند ٹیرف حاصل کیے جا سکیں-
عاصم ریاض، توانائی کے مشیر آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (APTMA) نے ایک شفاف اور آزاد گیس مارکیٹ کا مطالبہ کیا جہاں سب سے زیادہ مؤثر پلانٹس کو ترجیح دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ قیمتی اور محدود وسائل کو من مانے طریقے سے اس طرح تقسیم نہیں کیا جا سکتا کہ مارکیٹ کا توازن برقرار نہ ہو اور ان کا یہ بھی خیال تھا کہ گرڈ کی طرف منتقلی اقتصادی طور پر ممکن ہونی چاہیے۔
امینہ سہیل، سینئر آئی پی ایس ایسوسی ایٹ اور توانائی کی وکیل، نے توانائی کے شعبے میں مربوط منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیا، جو منصفانہ پالیسیوں پر مبنی ہو۔ انہوں نے کہا کہ گیس کی تقسیم قومی مفاد کے مطابق ہونی چاہیے، نہ کہ لابنگ کی کوششوں کی بنیاد پر، اور یہ کہ کپٹیو پاور پلانٹس کی کارکردگی کے معیار کے مطابق تشخیص کی جانی چاہیے تاکہ غیر مؤثر یونٹس کو مرحلہ وار ختم کیا جا سکے۔ انہوں نے مسابقتی اور پائیدار مارکیٹ کو فروغ دینے کے لیے ایک منصفانہ بینچ مارک قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
دیگر ماہرین نے بھی توانائی کی پالیسی میں اصلاحات اور شفافیت پر زور دیا تاکہ وسائل کا منصفانہ استعمال ممکن بنایا جا سکے۔ سیشن کا اختتام اس اتفاق رائے پر ہوا کہ کیپٹیو پاور پلانٹس کی گرڈ میں منتقلی، آڈٹ کا نفاذ اور توانائی کی شفاف مارکیٹ کا قیام پاکستان میں توانائی کی پائیداری اور صنعتی ترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔