اسلام آباد۔9نومبر (اے پی پی):وفاقی حکومت نے مالی سال 2025-26 کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت بلوچستان سے متعلق ترقیاتی منصوبوں کے لیے 2.77 ارب روپے جاری کر دیئے ہیں۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات کو پیش کیاگیا ایک سرکاری ورکنگ پیپرجو ویلتھ پاکستان کو دستیاب ہےکے مطابق ’’ڈیمانڈ نمبر 109 دیگر ترقیاتی اخراجات، صوبے و خصوصی علاقے‘‘ کے تحت بلوچستان کے منصوبوں کے لیے نظرثانی شدہ مختص رقم 24.49 ارب روپے ہے، جس کے مقابلے میں اب تک 2 ارب 77 کروڑ 26 لاکھ 50 ہزار روپے کی رقوم جاری کی جا چکی ہیں۔تمام صوبوں کے لیے اس مد میں مجموعی طور پر 92.79 ارب روپے کی نظرثانی شدہ مختص رقم رکھی گئی ہے، جس کے مقابلے میں تاحال مجموعی اجراء 3.01 ارب روپے کا ہے۔
اس لحاظ سے بلوچستان کو اب تک جاری کی جانے والی نقد رقوم کا حصہ سب سے زیادہ ہے، جو رواں مالی سال کے ابتدائی حصے میں اس مد کے 92 فیصد کے برابر بنتا ہے جبکہ صوبے کی اپنی مختص رقم کے لحاظ سے یہ 11 فیصد سے کچھ زیادہ بنتا ہے۔بلوچستان کے منصوبہ جاتی پورٹ فولیو میں سڑکوں کی تعمیر، آبی وسائل اور بلدیاتی انفراسٹرکچر کے منصوبے نمایاں ہیں ۔وہ شعبے جنہیں ماضی کی حکومتیں اور صوبائی قانون ساز مسلسل ترقی میں رکاوٹ کے طور پر اجاگر کرتے آئے ہیں۔سڑکوں کے منصوبوں میں بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں پختہ سڑکوں اور بائی پاسز کی تعمیر سے لے کر بڑے رابطہ منصوبے شامل ہیں، جو زرعی و معدنی علاقوں کو قومی شاہراہوں سے منسلک کرنے کے لیے بنائے جا رہے ہیں۔
ورکنگ پیپر میں پینے کے پانی، صفائی اور کوئٹہ سمیت دیگر شہری مراکز کے لیے ’’سمارٹ سٹی‘‘ طرز کے بلدیاتی منصوبے بھی درج ہیں، جن کے ساتھ ساتھ دور دراز تحصیلوں میں اسکولوں اور بنیادی صحت کے ڈھانچے کے منصوبے بھی شامل ہیں۔بلوچستان سے متعلق نمایاں منصوبوں میں بیکر (ڈیرہ بگٹی) میں گنڈ ڈیم کی تعمیر، ایران سرحد سے پنجگور تک 110 کلومیٹر سڑک کی تعمیر، لورالائی میں 15.5 کلومیٹر طویل بلیک ٹاپ نادرن بائی پاس روڈ، ژوب سے مکھتر تک مرغا کبزئی کے راستے 103 کلومیٹر بلیک ٹاپ سڑک (جو این-50 اور این-70 شاہراہوں کو جوڑے گی) اور چاغی ضلع کے تافتان میں کلی سردار عبد الرحیم خلجی روڈ شامل ہیں۔اسی فہرست میں کوئٹہ، کیچ، پنجگور، چاغی، واشک، قلات، قلعہ سیف اللہ، ژوب، زیارت اور دیگر اضلاع میں مختلف ترقیاتی پیکیجز بھی شامل ہیں۔
چلتے ہوئے سڑکوں کے کئی منصوبوں میں 19 کروڑ سے 70 کروڑ روپے کے درمیان قسطوں میں ادائیگیوں کا ذکر ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ ٹھیکیداروں اور عملدرآمدی اداروں کو مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے تاکہ وہ سال کے ابتدائی نصف میں سرگرمیاں برقرار رکھ سکیں۔ اس کے برعکس، نئے یا فزیبلٹی مرحلے کے منصوبوں کے لیے ابھی تک رقوم جاری نہیں ہوئیں، جو مالی سال کے ابتدائی سہ ماہی میں عام بات ہے کیونکہ اس دوران پی سی-ون منظوری، خریداری اور سائٹ حوالگی کے مراحل جاری ہوتے ہیں۔ژوب–مرغا کبزئی–مکھتر لنک روڈ جیسے منصوبے این-50 اور این-70 شاہراہوں کے درمیان سفر کے وقت میں کمی لائیں گے، جس سے شمالی بلوچستان اور وسطی پنجاب کے درمیان زرعی و معدنی مال برداری کی لاگت میں کمی آئے گی۔
اسی طرح، ایران سرحد سے شروع ہونے والی چیڈاگی تا پنجگور سڑک سرحدی تجارت کے فروغ میں معاون ثابت ہوگی جب کسٹم اور بارڈر مارکیٹ انفراسٹرکچر مکمل ہو جائے گا۔پانی کے ذخائر کا استحکام صوبے کی ترقیاتی حکمت عملی کا دوسرا ستون ہے۔ ڈیرہ بگٹی کے بیکر علاقے میں گنڈ ڈیم کا منصوبہ صوبے کی اس پالیسی کی نمائندگی کرتا ہے جس کے تحت چھوٹے اور درمیانے درجے کے ذخائر تعمیر کر کے پانی کی فراہمی اور مائیکرو آبپاشی کے نظام کو مستحکم کیا جا رہا ہے۔شہری خدمات اور ’’سمارٹ سٹی‘‘ طرز کے منصوبے، خصوصاً کوئٹہ کے لیے درج پیکیجز، سڑکوں، نکاسی آب، سٹریٹ لائٹس، کوڑا کرکٹ کے انتظام اور ٹریفک مینجمنٹ جیسے عناصر پر مشتمل ہیں۔ اگرچہ ان کی مالی گنجائش بڑے بین الاضلاعی منصوبوں سے کم ہے، لیکن یہ عوام کی روزمرہ زندگی پر براہ راست اثر کے باعث زیادہ نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔
ورکنگ پیپر کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اب تک بلوچستان کے لیے 24.49 ارب روپے کی نظرثانی شدہ مختص رقم کے مقابلے میں 2.77 ارب روپے کے اجرا سے مالی استعمال کی شرح کم ضرور ہے مگر مالی سال کے ابتدائی حصے کے تاریخی رجحان سے مطابقت رکھتی ہے۔ عام طور پر رقوم کی تقسیم تیسری اور چوتھی سہ ماہی میں تیز ہو جاتی ہے، جب مزید منصوبے قابلِ ادائیگی مراحل، جیسے سب گریڈ مکمل ہونا، ڈھانچے کی تعمیر اور آلات کی ترسیل تک پہنچ جاتے ہیں۔

