لاہور۔13نومبر (اے پی پی):پاکستان نے آئندہ پانچ سال کے دوران سویا بین کی درآمدی لاگت میں 50 فیصد تک کمی لانے کا ہدف مقرر کیا ہے کیونکہ مقامی سائنسدانوں نے پنجاب کے گرم موسمی حالات میں پھلنے پھولنے والی گرمی برداشت کرنے والی اور موسمیاتی لحاظ سے موزوں نئی اقسام تیار کر لی ہیں۔ان اعلیٰ پیداوار دینے والی اقسام کی کمرشل سطح پر کاشت کے ذریعے ملک تین ملین ٹن تک مقامی پیداوار حاصل کرنے کا خواہاں ہے ، ایک ایسا سنگ میل جو خوردنی تیل اور پولٹری فیڈ کے شعبوں میں نمایاں تبدیلی لا سکتا ہے۔آئل سیڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ (او آر آئی ) فیصل آباد کے پرنسپل سائنٹسٹ ڈاکٹر حافظ سعد بن مصطفیٰ نے ویلتھ پاکستان سے گفتگو میں کہا کہ یہ کامیابی تقریباً چار دہائیوں کی مسلسل تحقیق کا نتیجہ ہے۔انہوں نے بتایاکہ 1980 کی دہائی سے ہم سویا بین کو پنجاب کے موسمی حالات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہے تھے، آخرکار ہم نے وہ حاصل کر لیا جو پہلے ناممکن سمجھا جاتا تھا۔
ڈاکٹر سعد بن مصطفی ٰ کے مطابق ادارے نے اب تک سویا بین کی تین اقسام سپر سویا بین، ایاری سویا بین اور فیصل سویا بین تیار کی ہیں جبکہ چار مزید اقسام مختلف علاقوں میں موزونیت بڑھانے کے لئے زیرِ تحقیق ہیں۔یہ اقسام ساہیوال، اوکاڑہ، لاہور، شیخوپورہ، راولپنڈی، جہلم اور سرگودھا میں کامیاب تجربات میں مثبت نتائج دکھا چکی ہیں۔انہوں نے وضاحت کی کہ سویا بین میں تقریباً 40 فیصد پروٹین اور 20 فیصد خوردنی تیل ہوتا ہے جو پاکستان کی پولٹری، لائیوسٹاک اور خوردنی تیل کی صنعتوں کے لئے انتہائی اہم ہے۔انہوں نے کہا کہ مقامی پیداوار نہ صرف ملکی طلب پوری کر سکتی ہے بلکہ فیڈ، لائیوسٹاک اور فوڈ انڈسٹری کے لئے بھی مددگار ثابت ہو گی۔فی الحال پاکستان ہر سال سویا بین میل اور تیل کی بڑی مقدار درآمد کرتا ہے جس پر قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سعد بن مصطفیٰ کے مطابق نئی اقسام کے وسیع پیمانے پر استعمال سے پانچ سال میں درآمدی اخراجات نصف تک کم ہو سکتے ہیں اور ایک مستحکم مقامی سپلائی چین قائم کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر مناسب پالیسی سپورٹ اور سرمایہ کاری فراہم کی جائے تو 2030 تک مقامی پیداوار تین ملین ٹن تک پہنچ سکتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ نئی اقسام غیر جینیاتی ترمیم شدہ (Non-GMO) ہیں جو انہیں ان بین الاقوامی منڈیوں میں قابلِ قبول بناتی ہیں جہاں جی ایم او فصلوں پر پابندی ہے۔ یہ نہ صرف خود انحصاری کی جانب قدم ہے بلکہ پاکستانی سویا بین کے لئے برآمدی امکانات بھی پیدا کرتا ہے۔ڈاکٹر سعد بن مصطفیٰ نے تجویز دی کہ حکومت اور نجی شعبہ خصوصاً پولٹری فیڈ تیار کرنے والی کمپنیاں کنٹریکٹ فارمنگ اور بائے بیک ماڈلز کے ذریعے کسانوں کو شامل کریں تاکہ فصل کی کاشت کو منافع بخش بنایا جا سکے۔ماہرین اور سٹیک ہولڈرز نے اس سائنسی پیشرفت کو سراہتے ہوئے زور دیا کہ اس ترقی کو پائیدار بنانے کے لئے ایک جامع قومی سویا بین پالیسی کی ضرورت ہے۔فارمرز ایسوسی ایٹس پاکستان کے ایگریکلچرل اکانومسٹ عباد الرحمن خان نے زمین کے محتاط استعمال پر زور دیا۔ انہوں نے ویلتھ پاکستان سے گفتگو میں کہا کہ سویا بین کو گندم یا مکئی کی جگہ نہیں لینی چاہئے، حکومت کو چاہئے کہ وہ بنجر یا کم استعمال شدہ زمینوں پر اس کی کاشت کو فروغ دے تاکہ خوراکی اجناس متاثر نہ ہوں۔پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عبدالکریم بھٹی نے ویلتھ پاکستان کو بتایا کہ سویا بین میل کی مستحکم مقامی فراہمی پولٹری انڈسٹری کو مضبوط بنا سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ سویا بین پر مبنی فیڈ میں پروٹین کی مقدار زیادہ اور لاگت کم ہوتی ہے، جس سے پولٹری کی پیداوار میں بہتری اور قیمتوں میں استحکام آئے گا۔

