سید علی نواز گیلانی
….
پاکستان امید افزا مستقبل کی دہلیز پر کھڑا ہے‘ جو متنوع ترقیاتی حکمت عملی کو اپنانے اور چین کے ساتھ مضبوط تعاون کے ذریعے ترقیاتی مواقعوں کی صورت نت نئے امکانات کی کھوج اُور اظہار ہے۔ یہ مشترکہ ترقیاتی نقطہ نظر نہ صرف روشن مستقبل کا اعلان ہے بلکہ پاک چین باہمی شراکت داری کی جامعیت کو بھی اجاگر کر رہا ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا دوسرا مرحلہ ”سی پیک ٹو“ کا مقصد پہلے مرحلے سے سیکھی گئی کامیابیوں اور اسباق کو آگے بڑھانا ہے۔ سی پیک ٹو میں درحقیقت ترجیحات پر توجہ دینے کا نام ہے جس میں نئے مواقعوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون اور دوطرفہ تعلقات کو گہرا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اُور یہ اسٹریٹجک تبدیلی کی نشاندہی بھی ہے۔ ’سی پیک ٹو‘ متنوع ترقیاتی اِقدامات پر توجہ مرکوز کرتا ہے‘ جس میں زراعت‘ صنعتی تعاون‘ ٹیکنالوجی کی منتقلی‘ سیاحت و سماجی ترقی کے منصوبے شامل ہیں جیسا کہ تعاون کے نئے شعبوں کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ اس پُرجوش ایجنڈے کا مقصد چین اور پاکستان کے درمیان اِقتصادی روابط کا دائرہ وسیع کرنا‘ پائیدار ترقی اُور باہمی خوشحالی کو فروغ دینا ہے۔ ’سی پیک ٹو‘ کے مرکزی تصور میں اضافی بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر عمل درآمد ہے‘ جس میں شاہراہیں‘ ریلوے‘ بندرگاہیں اور ہوائی اڈے شامل ہیں۔ یہ کوششیں پاکستان اور چین کے ساتھ رابطوں کو بڑھانے کے لئے ہیںجس میں تجارت کا فروغ‘ سی پیک کیتکمیل سے نقل و حمل کو آسان بنانا اُور اس کے بعد سی پیک ٹو کی صورت اِس حکمت عملی کا ارتقا شامل ہیں جو کہ چین اور پاکستان کے مابین تعاون اور پیشرفت کا دلکش بیانیہ پیش کر رہا ہے۔
سال دوہزارتیرہ میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا باضابطہ افتتاح چین کے صدر شی جن پنگ کے تاریخی دورہ پاکستان کے دوران ہوا تھا۔ اِس افتتاحی مرحلے میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو ترجیح دی گئی اور سڑکوں‘ ریلویز اور توانائی کے منصوبوں پر مبنی منصوبوں کی بنیاد رکھی گئی۔ سال دوہزارپندرہ تک سی پیک کے ابتدائی مرحلے کے اہداف تیز رفتاری سے حاصل کر لئے گئے جس میں چین کے مغربی خطے اور پاکستان کی گوادر بندرگاہ کے مابین رابطوں کو فروغ دینے کے مقصد سے متعدد کوششوں کی تکمیل تھی اُور خاص بات یہ بھی رہی کہ سی پیک نے عالمی توجہ بھی حاصل کی۔ سال دوہزارسترہ توانائی‘ نقل و حمل‘ ٹیلی مواصلات اُور صنعتی تعاون جیسے شعبوں کا احاطہ کرنے والے متنوع منصوبوں کے آغاز کے ساتھ اہم لمحہ تھا۔ سی پیک نے چین کے پرعزم بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کی ایک کڑی (شاخ) کے طور پر بین الاقوامی توجہ حاصل کرنا شروع کی۔ سال دوہزارسترہ میں سی پیک کے دائرہ کار میں توسیع اور تنوع کے حوالے سے بات چیت ہوئی جس کے نتیجے میں سی پیک ٹو کا تصور پیش کیا گیا۔ تبدیلی کے اس مرحلے کا مقصد زراعت‘ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور سماجی ترقی سمیت تعاون کی نئی راہیں تلاش کرتے ہوئے کامیابیوں کو آگے بڑھانا تھا۔
چین اور پاکستان کے درمیان سال دوہزاراکیس میں ہونے والے باضابطہ معاہدوں سے سی پیک ٹو کا آغاز ہوا جو دونوں ممالک کی دوطرفہ اقتصادی و تجارتی شراکت داری میں اہم سنگ میل ہے اُور اِس میں پائیدار ترقی اور باہمی خوشحالی پر زور دیتے ہوئے جامع ترقیاتی حکمت عملیوں پر توجہ مرکوز کی گئی۔ سی پیک ٹو پر عمل درآمد کا آغاز سال دوہزاربائیس کے دوران ہوا‘ جس میں ہائی ویز، ریلوے، بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں پر اضافی بنیادی ڈھانچے کے منصوبے شامل ہیں اُور اِس کے ساتھ ہی دونوں ممالک کے درمیان عوامی وفود کے تبادلوں‘ ثقافتی تعاون اور تعلیمی تعاون کو فروغ دینے کی کوششیں کی گئیں جیسا کہ سال دوہزارتیئس میں سی پیک ٹو کی صورت دیکھا گیا کہ اس سے چین اور پاکستان کے مابین اقتصادی تعاون اور دوطرفہ تعلقات کو گہرا کیا گیا۔ یہ راہداری علاقائی ترقی اور رابطے کی بنیاد کے طور پر ابھری ہے اور اس میں وقت کے ساتھ تبدیلی کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ سال دوہزار چوبیس میں سی پیک ٹو کی پیش رفت جاری ہے۔ پاکستان اور چین نے باہمی تعاون بڑھانے اور ترجیحات و مواقع سے نمٹنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ یہ راہداری لچک‘ جدت طرازی اور مشترکہ خوشحالی کی علامت ہے‘ جو دونوں ممالک کے لئے امید افزا مستقبل کی نشاندہی کرتی ہے۔ سی پیک ٹو پاکستان کے معاشی مستقبل کا ضامن ہے تاہم اسے کئی ایک چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ جغرافیائی سیاسی تناو¿ اور سلامتی کے خطرات اس کی پیشرفت میں خلل ڈال سکتے ہیں اِس لئے پاکستان میں کما کرنے والے چینی اہلکاروں کی حفاظت یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔ عالمی مارکیٹ کے اُتار چڑھاو¿ کی وجہ سے معاشی استحکام الگ قسم کی تشویش ہے۔ زمین اور ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے پائی جانے والی مقامی مخالفت رفعکرنے کی ضرورت ہے۔ اِسی طرح قرض سے حاصل کردہ مالی وسائل کو محتاط مالی انتظام کے تابع ہونا چاہئے۔ بڑے پیمانے پر منصوبوں کے ماحولیاتی اثرات کو بھی منظم کیا جانا چاہئے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بھی سی پیک منصوبوں کے تسلسل میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ ان رکاوٹوں پر قابو پانے کے لئے تعاون اور فعال اقدامات کی ضرورت ہے۔ صرف محتاط منصوبہ بندی کے ساتھ ہی سی پیک ٹو کو پاکستان کی خوشحالی کا بیانیہ بنایا جا سکتا ہے۔ سی پیک سے سی پیک ٹو میں تبدیلی چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی شراکت داری کی فعالیت اُور اِس کے ارتقا کی عکاسی ہے‘ جو ترقی اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لئے ان کے باہمی عزم کو اجاگر کر رہی ہے۔
سی پیک ٹو کا مقصد پائیدار ترقی اُور اِس کے حل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے پاکستان کی بجلی کی پیداواری ضروریات پورا کرنے کے لئے توانائی کے منصوبوں کی توسیع ہے۔ قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے استفادہ اور موجودہ بنیادی ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے سی پیک ٹو توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر ماحولیاتی ذمہ داری کے فروغ کی کوششوں کا حصہ ہے۔ فزیکل انفراسٹرکچر کے علاو¿ہ سی پیک ٹو عوام سے عوام کے درمیان تبادلوں‘ ثقافتی تعاون اور تعلیمی تعاون کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد چین اور پاکستان کے عوام کے درمیان سماجی تعلقات کو مضبوط بنانا‘ باہمی تفہیم کو گہرا کرنا اور پائیدار دوستی کا فروغ شامل ہے۔ پیچیدہ جغرافیائی سیاسی حرکیات‘ معاشی اتار چڑھاو¿ اور سیکیورٹی چیلنجز سے بھری دنیا میں سی پیک ٹو کی آمد پاکستان کے لئے اہم سنگ میل کے طور پر ابھرکر سامنے آئی ہے۔ یہ امید کی ایک کرن ہے، جو غیر یقینی صورتحال اور افراتفری کے ماحول میں آگے بڑھنے کی تحریک ہے اُور اِسی کی بدولت مستقبل کی سمت بڑھتے ہوئے راستہ روشن دکھائی دے رہا ہے۔ درحقیقت سی پیک ٹو کے آغاز سے پائیدار ترقی اور سماجی و اقتصادی تبدیلی کے ٹھوس روڈ میپ پر آگے بڑھنے کا عمل جاری ہے اُور اِسی کے ذریعے پاک چین دوستی مزید گہرئی اُور ترقی کے لامحدود امکانات کا مجموعہ دکھائی دے رہی ہے۔ (مضمون نگار تجزیہ کار اور پاکستان چائنا فرینڈشپ ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا شاخ کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ اُن سے بذریعہ ای میل (syeed.gilani@gmail.com) رابطہ کیا جا سکتا ہے۔