اسلام آباد — دنیا بھر میں سروے کرنے والے بین الاقوامی ادارے، اپساس، کی حال میں جاری کردہ رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایکٹ الائنس پاکستان کے نیشنل کنوینر، مبشر اکرم نے کہا ہے کہ پاکستان میں غیر متوازن ٹیکس پالیسیوں نے بالخصوص مقامی سگریٹ انڈسٹری کے مالکان کے لیے ٹیکس چوری کے مواقع بڑھا دیے ہیں، جس سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس پالیسیوں کو زمینی حقائق اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے موجودہ انفورسمنٹ نظام کی روشنی میں تشکیل دینے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ان-لینڈ ریونیو انفورسمنٹ نیٹ ورک کو مؤثر بنانے کے لئے آپریشنل سہولیات کی فراہمی نہایت اہم ہے، تاکہ انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر ٹیکس چوری میں ملوث عناصر کے خلاف فوری کاروائی کی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو تمباکو سیکٹر میں ٹیکس چوری کو فروغ دینے والی کمزور انفورسمنٹ صورتحال کے پیش نظر، پہلے مرحلے میں انفورسمنٹ حکمت عملی اور عملدرآمد کے لیے ضروری وسائل کی فراہمی پر فوری توجہ دینی چاہیے، تاکہ سگریٹ انڈسٹری کے ان مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے اور معیشت کو مستحکم بنایا جا سکے۔
اپساس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 91 سگریٹ برانڈز غیر قانونی طور پر حکومت کی مقرر کردہ کم از کم قیمت 127.44 روپے سے بھی کم پر فروخت ہو رہے ہیں۔ اس غیر قانونی عمل سے قومی خزانے کو سالانہ تین سو ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ نہ صرف 91 برانڈز غیرقانونی طور پر حکومتی مقرر کردہ قیمت سے کم پر فروخت ہو رہے ہیں بلکہ ان پر ریاست کی جانب سے لاگو ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم (ٹی ٹی ایس) کی سرکاری ٹکٹس بھی چسپاں نہیں پائی گئیں۔ سروے کے مطابق پاکستان میں فروخت ہونے والے سگریٹ برانڈز میں 74 ایسے بھی ہیں جو سمگلنگ کے ذریعہ پاکستان پہنچتے ہیں اور ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں کھلے عام فروخت ہوتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق تقریبا ڈھائی ارب سگریٹ پیکٹ پاکستان میں سالانہ غیرقانونی طور پر فروخت ہوتے ہیں جن پر ٹی ٹی ایس کی سرکاری ٹکٹس بھی موجود نہیں ہوتیں مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ٹیکس چوری کے اس تسلسل کو روکنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔
اپساس نے یہ رپورٹ پاکستان کے تمام صوبوں میں ایک ہزار سے زائد ریٹیل آؤٹلیٹس کا سروے کرنے کے بعد جاری کی جس کے مطابق، پاکستان میں سگریٹ کی غیرقانونی مصنوعات بنانے اور پھر انہیں فروخت کرنے والے ریاستی قوانین کا صریحاً مذاق اڑاتے ہوئے اب 25 اور 30 سگریٹس کے پیکٹ بھی مارکیٹ میں سپلائی کر رہے ہیں۔ قانونی طور پر وہ ایسا نہیں کر سکتے مگر یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
رپورٹ کے مطابق متعدد مقامی برانڈز اس قانون کی خلاف ورزی میں ملوث پائے گئے، جو کہ مارکیٹ میں 127 روپے سے کم قیمت پر اپنے سگریٹ فروخت کر رہے ہیں۔
یہ اک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ مردان، سوابی، چارسدہ، نوشہرہ، ملتان، سکھر، کراچی، اور آزاد جموں و کشمیر کے میرپور اور بھمبر میں جعلی سگریٹوں کی تیاری عشروں سے جاری ہے۔ ان علاقوں میں غیر قانونی سرگرمیوں کی وجہ سے ریاست کو معاشی طور پر شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
ایکٹ الائینس پاکستان کے نیشنل کنوینر، مبشر اکرم، نے حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ وہ اس غیر قانونی تجارت اور ٹیکس چوری کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے اور کہا کہ "یہ نہ صرف ملکی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ ریاست کے خلاف معاشی جنگ کے مترادف ہے۔” ایکٹ الائینس پاکستان میں غیر قانونی تجارت، ٹیکس چوری، اسمگلنگ، اور جعلسازی کے خلاف 2016 سے کام کر رہا ہے اور ملک بھر میں اپنے اتحادیوں اور نیٹ ورک کے ساتھ ان مسائل پر کام کر رہا ہے۔
مبشر اکرم نے مزید کہا کہ حکومت کو فوری طور پر انفورسمنٹ سٹریٹجی، عملدرآمد کے لیے وسائل کی فراہمی اور انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر ٹیکس چوری میں ملوث تمام عناصر کے خلاف کاروائیاں شروع کرنی چاہیے۔
یہ بھی قابل فکر بات ہے کہ چند اک بین الاقوامی این جی اوز کی جانب سے، جنہیں پاکستان حکومت کی جانب سے کوئی باضابطہ اجازت نامہ نہیں دیا گیا، سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے کی مسلسل وکالت کی جا رہی ہے، مگر یہ تنظیمیں ان لوگوں کے بارے میں بات نہیں کرتیں جو کسی قسم کے ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ مزید بات کرتے ہوئے مبشر اکرم نے کہا کہ "ہمارا خیال ہے کہ ایسے یکطرفہ مطالبات مطالبات غیر قانونی تجارت اور ٹیکس چوری کرنے والے تمباکو کی مصنوعات بنانے والے تقریبا 38 مقامی اداروں کو بےپناہ فائدہ پہنچاتے ہیں جب کہ قانون کی پاسداری کرنے والے دو غیرملکی اداروں کو بےپناہ نقصان۔” ان کا مزید بھی کہنا تھا غیرقانونی تجارت اور ٹیکس چوری پر قابو پانے کو کوششوں کی نیم دلانہ کوششیں قانون کی پاسداری اور پورا ٹیکس ادا کرنے والے اداروں کو سزا دینے کے مترادف ہیں۔
قانون کی مسلسل کمزور عملداری کے نتیجے میں، پاکستان میں سگریٹ کی قاونی صنعت اب تباہی کے دہانے پر ہے۔ جب کہ غیرقانونی تجارت اور ٹیکس چوری کرنے والے عناصر کا مارکیٹ شئیر پچھلے تین سالوں میں مسلسل بڑھا ہے۔ سال 2022 میں سگریٹ کی غیرقانونی تجارت 37 فیصد تھی جو 2024 میں بڑھ کر 54 فیصد ہو چکی ہے جبکہ ٹیکس قوانین کی مکمل پاسداری کرنے والے اداروں کا مارکیٹ شئیر 2022 میں 63 فیصد سے 46 فیصد تک آ چکا ہے۔ غیر متوازن ٹیکس پالیسیوں اور موجودہ انفورسمنٹ نظام کی ناکامیوں کی وجہ سے ٹیکس چوری کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جو کہ نہ صرف قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ قانونی سگریٹ انڈسٹری کو بھی مشکلات میں ڈال رہا ہے۔
مبشر اکرم نے حکومت پاکستان سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ فوری طور پر ایک جامع اور مؤثر انفورسمنٹ حکمت عملی ترتیب دے، تاکہ پاکستان اپنے ترقیاتی اہداف اور مقاصد کو حاصل کر سکے اور ریاستِ پاکستان کو معاشی نقصان جاری شدہ تسلسل روکا جا سکے۔