اسلام آباد۔12نومبر (اے پی پی):پاکستان اور چین نے ایک جامع تعاون منصوبہ تیار کیا ہے جس کا مقصد پاکستان کے زرعی تحقیقاتی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہے،یہ منصوبہ مشترکہ جدت، جدید لیبارٹریوں اور تربیتی پروگراموں کے ذریعے پاکستان کے زرعی تحقیقاتی ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور جدید زراعت میں ٹیکنالوجی کے فرق کو کم کرنے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔
یہ منصوبہ چین کی وزارت زراعت و دیہی امور (ایم اے آر اے ) اور چائنیز اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز (سی اے اے ایس ) نے پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل (پی اے آر سی )، نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سینٹر (این اے آر سی ) اور وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے تحت کام کرنے والے 11 تحقیقی اداروں کے تفصیلی جائزے کے بعد مشترکہ طور پر تیار کیا۔منصوبے میں ساختی اصلاحات اور بین الاقوامی تعاون پر مبنی ماڈل تجویز کیا گیا ہے جو ملکی اصلاحات کے ساتھ ساتھ چین-پاکستان سائنس و ٹیکنالوجی تعاون کے ایک وسیع فریم ورک کے قیام پر مبنی ہے تاکہ زرعی شعبے میں طویل المدتی جدیدیت کو فروغ دیا جا سکے۔
ویلتھ پاکستان کے پاس دستیاب ایک سرکاری دستاویز کے مطابق مشترکہ تحقیقی پروگرام گندم، چاول، مکئی، کپاس، باغبانی، لائیوسٹاک اور پائیدار زرعی ٹیکنالوجیز پر مرکوز ہوں گے۔ ترجیحی شعبوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف مزاحم اقسام کی تیاری، پانی کے مؤثر استعمال کے نظام، بیماریوں اور کیڑوں کے انسداد اور لائیوسٹاک بیماریوں کا انتظام شامل ہے۔
منصوبے کے تحت فصلوں کی جینو ٹائپنگ، فینو ٹائپنگ اور جدید زرعی اطلاقات کے لیے مشترکہ لیبارٹریوں کے قیام کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ یہ لیبارٹریاں خوراک کی پروسیسنگ، ویلیو ایڈیشن اور زرعی مشینری کی مقامی تیاری کے عمل میں جدت لانے میں مدد دیں گی، جس سے پاکستان کی تکنیکی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔دستاویز کے مطابق انسانی وسائل کی ترقی منصوبے کا مرکزی جزو ہے۔ اس کے تحت دو طرفہ تعلیمی و تحقیقی تبادلے، پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ اسکالرشپس، قلیل مدتی تربیتی پروگرام اور سینئر سائنس دانوں کے تبادلے شامل ہوں گے، تاکہ پاکستان کی تحقیقی صلاحیت کو عالمی معیار سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔
ٹیکنالوجی کے تبادلے کے لئے ایک نیا ماڈل بھی تجویز کیا گیا ہے۔ اس کے تحت ٹیکنالوجی ٹرانسفر یونٹس (TTUs) تشکیل دی جائیں گی جو دانشورانہ حقوق، لائسنسنگ اور کمرشلائزیشن کے امور کو سنبھالیں گی جبکہ نیشنل ایگریکلچرل ٹیکنالوجی ٹرانسفر سینٹر تحقیقاتی نتائج کو صنعت اور سرمایہ کاروں سے جوڑنے کے لئے رابطے کا کردار ادا کرے گا۔اختراعات کی حوصلہ افزائی کے لئے ایک منافع بانٹنے کا نظام بھی تجویز کیا گیا ہے، جس کے تحت تحقیق کاروں اور اداروں کو کمرشلائزیشن سے حاصل آمدنی کا 50 سے 70 فیصد حصہ دیا جائے گا۔
مزید برآں، منصوبے میں تحقیقاتی اداروں کو کسانوں کے تربیتی مراکز اور علاقائی ڈیمانسٹریشن حبز سے جوڑنے کی سفارش کی گئی ہے تاکہ نئی ٹیکنالوجیز براہِ راست کھیتوں تک پہنچ سکیں۔منصوبے پر عمل درآمد کی نگرانی کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کی جائے گی جس میں وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق، پارک اور دیگر متعلقہ اداروں کے نمائندے شامل ہوں گے تاکہ پیش رفت کی نگرانی، اہداف کا تعین اور شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔

