لاہور۔21اکتوبر (اے پی پی):پنجاب لائیوسٹاک ڈیپارٹمنٹ نے اپنے مویشیوں کے قرضہ اسکیم کے تحت کسانوں میں37 کروڑ روپے کے قرضے تقسیم کر دیئے۔ یہ اقدام دودھ اور گوشت کی پیداوار میں اضافہ کرنے اور مویشی پال کسانوں کو مالی سہولت فراہم کرنے کے لیے شروع کیے گئے منصوبے کے دوسرے مرحلے کا حصہ ہے۔پنجاب لائیوسٹاک ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حیدر علی خان نے ویلتھ پاکستان سے گفتگو میں بتایا کہ مالی سال2025-26 کے دوران دیہی پنجاب میں3 لاکھ مویشیوں کی افزائش کے لیے قرضے فراہم کیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ محکمہ کسانوں کے لیے لائیوسٹاک کارڈز جاری کر رہا ہے جو فصل کاشت کرنے والے کسانوں کے کسان کارڈز کی طرز پر ہیں۔ان کارڈز کے ذریعے مویشی پال کسان1 لاکھ35 ہزار روپے سے2 لاکھ 70 ہزار روپے تک کے قلیل المدتی قرضے چار ماہ کے لیے حاصل کر سکیں گے،جن کی واپسی میں ایک ماہ کی نرمی بھی دی گئی ہے۔ڈاکٹر حیدر کے مطابق یہ ہدف مالی معاونت کسانوں کو چارہ،ادویات اور افزائشی مویشی خریدنے میں مدد دے گی،جس سے صوبے بھر میں دودھ اور گوشت کی پیداوار کے معیار اور مقدار میں اضافہ متوقع ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب پاکستان کے مویشی شعبے میں سب سے آگے ہے۔زرعی مردم شماری 2024 کے مطابق صوبے میں مویشیوں کی کل تعداد10 کروڑ 42 لاکھ ہے،جن میں1 کروڑ69 لاکھ گائے اور1 کروڑ 42 لاکھ بھینسیں شامل ہیں جبکہ بکریوں، بھیڑوں اور پولٹری کی بڑی تعداد بھی موجود ہے۔محکمہ لائیوسٹاک نے قرضہ اسکیم کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب کے12 اضلاع میں مویشیوں کی مفت تقسیم کے دوسرے مرحلے کا آغاز بھی کیا ہے،جس کا مقصد دیہی خواتین کو روزگار کے مواقع فراہم کر کے با اختیار بنانا ہے۔ڈاکٹر حیدر نے بتایا کہ یہ منصوبہ مستحق خواتین کو گائے،بھینسیں اور بکریاں فراہم کر کے انہیں دودھ کی پیداوار سے پائیدار آمدنی کا ذریعہ فراہم کرے گا۔محکمہ کے مطابق ملتان، خانیوال، لودھراں، وہاڑی، بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان، لیہ، مظفرگڑھ، راجن پور اور کوٹ ادو میں مجموعی طور پر 5,500 جانور خواتین میں تقسیم کئے جا رہے ہیں۔مستفید ہونے والی خواتین کو جانوروں کی دیکھ بھال اور چھوٹے پیمانے پر کاروبار کے فروغ کے لیے ویٹرنری تربیت بھی دی جائے گی۔
ماہرینِ لائیوسٹاک نے اس اقدام کو پنجاب کی دیہی معیشت کے لیے ایک اہم سنگِ میل قرار دیا ہے۔وزارتِ نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے لائیوسٹاک کنسلٹنٹ ڈاکٹر محمد جنید نے ویلتھ پاکستان سے گفتگو میں کہا کہ یہ اسکیم مویشی پال کسانوں کے لیے منافع بخش مواقع پیدا کرے گی۔انہوں نے کہا کہ مویشیوں کا شعبہ اس وقت پاکستان کے جی ڈی پی کا تقریبا 11 فیصد حصہ بنتا ہے،لیکن اس میں ترقی کی بے پناہ گنجائش موجود ہے۔یہ اسکیم چھوٹے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کر سکتی ہے اور پاکستان کے بین الاقوامی منڈیوں میں حصے کو بڑھا سکتی ہے۔ڈاکٹر جنید نے بتایا کہ ملائیشیا آئندہ برسوں میں پاکستان سے 20 کروڑ امریکی ڈالر مالیت کا گوشت درآمد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور پنجاب، جو ملک کے43 فیصد بیف اور32 فیصد مٹن پیدا کرتا ہے،اس مانگ کو پورا کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ عالمی حلال گوشت مارکیٹ اس وقت2.8 ٹریلین ڈالر کی ہے،جس کا2032 تک بڑھ کر 7.5 ٹریلین ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔اگر پاکستان مویشی شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرے اور سرٹیفکیشن و ٹریس ایبلٹی سسٹم بہتر بنائے تو وہ برازیل، آسٹریلیا اور ارجنٹینا جیسے بڑے برآمد کنندگان کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دودھ کا شعبہ بھی ایک بڑی مگر غیر استعمال شدہ صلاحیت رکھتا ہے۔پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا دودھ پیدا کرنے والا ملک ہے لیکن عالمی ڈیری مارکیٹ میں اس کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ڈاکٹر جنید کے مطابق عالمی دودھ کی صنعت1.03 ٹریلین ڈالر کی ہے اور پاکستان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے،بشرطیکہ وہ کولڈ چین انفراسٹرکچر، پراسیسنگ پلانٹس اور کوالٹی سرٹیفکیشن کے نظام کو فروغ دے۔انہوں نے زور دیا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر قریبی تعاون پاکستان کو دودھ اور گوشت کی برآمدات میں نمایاں مقام دلا سکتا ہے۔
