پنجاب حکومت تحصیل سطح پر نئے ویٹرنری تشخیصی آلات فراہم کرے گی

لاہور۔17نومبر (اے پی پی):پنجاب حکومت صوبے بھر میں مویشیوں کی بیماریوں کی بروقت تشخیص اور موثر کنٹرول کے لئے ویٹرنری تشخیصی سہولیات کو توسیع اور جدید بنا رہی ہے۔پنجاب لائیوسٹاک ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حیدر علی خان نے ویلتھ پاکستان کو بتایا کہ صوبے کے تمام 41 اضلاع کی تحصیل سطح کے ویٹرنری ہسپتالوں کو 133 الٹراساؤنڈ مشینیں فراہم کی جائیں گی۔ اس کے علاوہ ڈویژنل ویٹرنری ہسپتالوں میں تشخیصی صلاحیت بڑھانے کے لئے 10 پورٹیبل ایکسرے مشینیں بھی دی جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ ویٹرنری ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو مرحلہ وار اپ گریڈ کیا جا رہا ہے تاکہ مویشیوں میں بیماریوں کی تشخیص اور انتظام کو مزید موثر بنایا جا سکے۔پنجاب میں اس وقت 2,508 ویٹرنری علاج گاہیں کام کر رہی ہیں جن میں 754 سول ویٹرنری ہسپتال، 1,754 سول ویٹرنری ڈسپنسریاں، 202 موبائل ویٹرنری ڈسپنسریاں اور 43 موبائل ویٹرنری لیبارٹریاں شامل ہیں۔ساتویں زرعی مردم شماری 2024 کے مطابق پنجاب پاکستان کی سب سے بڑی لائیوسٹاک آبادی کا حامل صوبہ ہے

جس میں مجموعی طور پر 104 ملین سے زائد جانور شامل ہیں جن میں 16.9 ملین گائیں، 14.2 ملین بھینسیں، 13.3 ملین بھیڑیں اور 31.3 ملین بکریاں شامل ہیں۔ڈاکٹر حیدر علی خان نے بتایا کہ حکومت ضلعی اور ڈویژنل سطح کے ویٹرنری ہسپتالوں کو جدید سرجیکل تھیٹرز، الٹرا سونوگرافی یونٹس اور پورٹیبل ایکسرے سسٹمز سے بھی لیس کر رہی ہے تاکہ ہنگامی اور معمول کی دیکھ بھال کو بہتر بنایا جا سکے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ صوبے میں 15 منہ کُھر (ایف ایم ڈی ) سے پاک کمپارٹمنٹس قائم کئے جا رہے ہیں تاکہ پنجاب میں تیار ہونے والا گوشت عالمی معیار کی صحت اور حفاظت کے تقاضوں پر پورا اتر سکے۔انہوں نے کہا کہ ایف ایم ڈی فری زونز کا قیام نہ صرف مویشیوں کی صحت بہتر کرے گا بلکہ پیداواری نقصانات بھی کم ہوں گے۔ اس سے پنجاب کے گوشت کی برآمدات کو مشرقِ وسطیٰ کی غذائی قلت کے شکار منڈیوں تک بہتر رسائی ملے گی۔لائیوسٹاک ماہرین نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ جدید تشخیصی سہولیات سے بریڈرز کے وہ دیرینہ مسائل کم ہوں گے جو اکثر ناکافی سہولیات کے باعث پیش آتے ہیں۔

یونیورسٹی آف ایگرکلچر فیصل آباد کے فیکلٹی آف ویٹرنری سائنسز کے سابق پروفیسر ڈاکٹر ارشاد محمد خان نے پنجاب میں گائے، بھینس، بھیڑ اور بکریوں کو متاثر کرنے والی اہم بیماریوں کی نشاندہی کی جن میں منہ کُھر، لمپی سکن ڈیزیز، ہیمرجک سیپٹیسیمیا، ٹِک سے پھیلنے والی بیماریاں، اینٹیروٹوکسییمیا، کیپرائن پلیورو نمونیا اور پی پی آر شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیا اقدام صوبے میں ان بیماریوں سے نمٹنے میں مدد دے گا۔ویٹرنری ماہرین نے ضلعی سطح پر جدید تشخیصی لیبارٹریوں کے قیام کے فیصلے کو بھی خوش آئند قرار دیا۔ لاہور میں نجی لیبارٹری چلانے والے ویٹرنری پیتھالوجسٹ ڈاکٹر واسف عمیر نے ویلتھ پاکستان کو بتایا کہ اس وقت جدید سرکاری تشخیصی لیبارٹریاں صرف یو وی اے ایس لاہور اور یونیورسٹی آف ایگرکلچر فیصل آباد میں موجود ہیں۔ زیادہ تر لائیوسٹاک فارمر نجی ٹیسٹنگ کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے، اس لئے پنجاب حکومت کی جانب سے ضلعی سطح پر سرکاری تشخیصی لیبارٹریوں کا قیام لائیوسٹاک سیکٹر کے لئے انتہائی فائدہ مند ہوگا۔

Related Post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے