بینکوں کی جانب سے مالی سال 2024-25 میں زرعی قرضوں کی مد میں 2.58 ٹریلین روپے کی تقسیم

Money is born soil in the bottom of the plantations. Agribusiness profit land value and agricultural startups

اسلام آباد۔4نومبر (اے پی پی):پاکستان کے بینکنگ شعبے نے مالی سال 2024-25 کے دوران زرعی قرضوں کی مد میں 2.58 ٹریلین روپے جاری کیے جو سالانہ ہدف سے تجاوز کرتے ہیں۔ اس پیش رفت کا مقصد چھوٹے کسانوں کو مالیاتی سہولتوں تک رسائی فراہم کرنا اور دیہی معیشت میں مالی شمولیت کو فروغ دینا ہے، یہ اقدامات سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی نئی پالیسیوں کے تحت کئے گئے۔ایس بی پی کے زرعی قرضہ جات و مالی شمولیت کے شعبہ کی دستاویزات کے مطابق 2.58 ٹریلین روپے کی تقسیم سالانہ منصوبے کا 100.2 فیصد ہے جو ملک بھر میں زرعی فنانسنگ کے تسلسل اور توسیع کی عکاسی کرتی ہے۔

یہ رقم مالی سال 2023-24 کے دوران جاری کیے گئے 2.22 ٹریلین روپے سے 16.3 فیصد زیادہ ہے۔ایس بی پی کے مطابق زرعی قرضوں کے بہائو کو بڑھانے کے لیے بینکوں اور متعلقہ اداروں کے ساتھ قریبی تعاون کے تحت "ایگریکلچر کریڈٹ ایکسپینشن پلانز” (اے-سی ای پیز) نافذ کیے جا رہے ہیں۔فی الوقت 47 مالیاتی ادارے زرعی قرضہ جات فراہم کر رہے ہیں جن میں پانچ بڑے کمرشل بینک، 13 درمیانے اور چھوٹے کمرشل بینک، 6 اسلامی بینک، دو خصوصی بینک، 11 مائیکرو فنانس بینک، 10 مائیکرو فنانس ادارے اور دیہی سپورٹ پروگرام شامل ہیں۔جون 2025ء کے اختتام پر زرعی قرضوں کا مجموعی واجب الادا پورٹ فولیو 13.8 فیصد اضافی سے 995.3 ارب روپے تک جا پہنچا جو گزشتہ سال کے 875 ارب روپے سے زیادہ ہے۔

فعال قرضہ لینے والوں کی تعداد بھی سال بہ سال 7.3 فیصد بڑھ کر 29 لاکھ تک پہنچ گئی جو دیہی علاقوں میں مالی رسائی کے فروغ کی نشاندہی کرتی ہے۔صوبہ پنجاب زرعی قرضوں میں سب سے آگے رہا جسے 2,045.1 ارب روپے (اپنے ہدف کا 103.6 فیصد) فراہم کیے گئے۔ اس کے بعد سندھ کو 453.4 ارب روپے (93.1 فیصد) جبکہ خیبر پختونخوا کو 55.2 ارب روپے (68.9 فیصد) ملے۔ بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو مجموعی طور پر 23.6 ارب روپے کے قرضے جاری کیے گئے۔بینکوں میں پانچ بڑے کمرشل بینک سب سے نمایاں رہے جنہوں نے 1,442.3 ارب روپے جاری کیے جو ان کے سالانہ ہدف کا 108 فیصد ہے۔

خصوصی بینکوں جیسا کہ زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ اور پنجاب کوآپریٹو بینک لمیٹڈ نے مجموعی طور پر 85.6 ارب روپے جاری کیے جو بالترتیب 81 فیصد اور 119 فیصد ہدف کے برابر ہیں۔ مائیکرو فنانس بینکوں اور اداروں نے بھی بہتر کارکردگی دکھائی، بالترتیب 252.3 ارب اور 30 ارب روپے جاری کیے جو ان کے اہداف کا 102.9 فیصد اور 95.3 فیصد ہیں۔فصلوں اور زرعی پیداوار کے شعبے کو 1,443.8 ارب روپے ملے جو کل قرضوں کا 56 فیصد بنتے ہیں اور اس میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 19.3 فیصد اضافہ ہوا۔ غیر زرعی شعبہ جس میں لائیو سٹاک، پولٹری اور زرعی خدمات شامل ہیں، کو 1,113.4 ارب روپے (کل کا 44 فیصد) فراہم کیے گئے جو سال بہ سال 12.8 فیصد اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔

زرعی فنانسنگ کے فروغ کے لیے ایس بی پی نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے کئی سکیمیں متعارف کرائی ہیں۔ "رسک کوریج سکیم برائے چھوٹے کسان و پسماندہ علاقے” کے تحت بینکوں کو چھوٹے کسانوں کو قرض دینے پر 10 فیصد تک ابتدائی نقصان کا تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہر کسان کے لیے 10,000 روپے کی سبسڈی بھی دی جا رہی ہے تاکہ بینکوں کے اخراجات کم ہوں۔ یہ سکیم مالی سال 2028ء تک موثر رہے گی اور ہر سال تقریباً 100 ارب روپے کے نئے قرضے اور 2.5 لاکھ نئے کسانوں کو باضابطہ مالیاتی نظام میں شامل کرے گی۔

اسی طرح "نیشنل سبسسٹنس فارمرز سپورٹ انیشیٹو” کے تحت چھوٹے کسانوں کے لیے ڈیجیٹل اور بلا ضمانت قرضہ جات فراہم کیے جا رہے ہیں تاکہ بے زمین اور کم آمدنی والے کاشتکاروں کو مالیاتی نظام میں لایا جا سکے۔وزیراعظم یوتھ بزنس اینڈ ایگریکلچر لون سکیم (پی ایم وائی بی اینڈ اے ایل ایس) نے اپنے ابتدائی دو مراحل میں 100 فیصد اہداف حاصل کیے۔

جون 2025ء تک بینکوں نے 20 شراکتی اداروں کے ذریعے 32 ارب روپے کے قرضے جاری کیے جبکہ مالی سال 2025-26 کے لیے اس کا ہدف بڑھا کر 65 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔2022ء میں شروع کی گئی "الیکٹرانک ویئر ہائوس رسید فنانسنگ” (ای ڈبلیو آر ایف) سکیم بھی تیزی سے مقبول ہو رہی ہے جس کے تحت کسان، تاجران اور پروسیسرز بغیر روایتی ضمانت کے اپنی ذخیرہ شدہ اجناس کے عوض قرضے حاصل کر سکتے ہیں۔ مالی سال 2024-25 کے دوران بینکوں نے 518 قرضہ داروں کو 1.996 ارب روپے جاری کیے۔ اس سکیم کے آغاز سے اب تک 10 ارب روپے سے زائد کی فنانسنگ فراہم کی جا چکی ہے۔

Related Post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے