سید علی نواز گیلانی
پاکستان اُور چین کی دوستی مثالی ہے۔ یہ بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ میں یک جہتی اور اعتماد جیسی بنیادوں پر مضبوطی سے کھڑی ہے۔ دونوں ممالک ’اٹوٹ بندھن‘ میں بندھے ہوئے ہیں اور ہنگامہ خیز عالمی سیاست میں دونوں ممالک کی دوستی ایک پائیدار اُور طاقت کا استعارہ ہے۔ ہمالیہ کی بلند و بالا چوٹیوں سے لے کر اسلام آباد اور بیجنگ کی مصروف شاہراو¿ں تک‘ پاک چین سفارت کاری‘ تاریخ اور اشتراک عمل پر مبنی عمل فقید المثال ہے۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان اور چین کے سفارتی سفر کا آغاز 21 مئی 1951ءکو ہوا تھا اُور ہر گزرتے دن اور سال کے ساتھ یہ سفارتی تعلق پہلے سے زیادہ مضبوط اتحاد میں تبدیل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ باہمی احترام پر مبنی یہ خوشگوار تعلقات ہر موسم میں ’اسٹریٹجک کوآپریٹو پارٹنرشپ‘ کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو دونوں ممالک کی قیادت کی جانب سے اسے آگے بڑھانے کے غیر متزلزل عزم کی عکاسی بھی ہے۔ پاکستان عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کرنے والے چند پہلے ممالک میں شامل ہے اُور چین کو اپنا دست و بازو (آئرن برادر) سمجھتا ہے جبکہ چین نے اِس خیرسگالی کے جواب میں‘ پاکستان کو اپنے قریبی دوستوں اور ترقیاتی شراکت داروں میں شامل کر رکھا ہے۔ یہ گہری دوستی باہمی اعتماد و احترام اور خیر سگالی کے جذبات پر مبنی ہے‘ جسے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان اعلی ٰ سطحی وفود کے باقاعدگی سے تبادلے کی صورت دیکھا جا سکتا ہے۔ اقتصادی طور پر پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار اور سرمایہ کار کی حیثیت سے چین کا کردار‘ خاص طور پر پاکستان میں بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے شعبوں کی ترقی میں‘ دو طرفہ ہم آہنگی کا پیش خیمہ ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ کے ”ون روڈ ون بیلٹ (BRI)“ منصوبے کے تحت ایک الگ فلیگ شپ منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) تخلیق کیا گیا جس کا باضابطہ آغاز اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اُور جس سے دوطرفہ تعلقات غیر معمولی بلندیوں پر پہنچ گئے ہیں۔ ’سی پیک‘ کا بنیادی مقصد اقتصادی و تجارتی رابطوں اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی ہے اُور اِس حکمت عملی نے پاکستان بھر میں سماجی و اقتصادی خوشحالی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مشترکہ تعاون کمیٹیوں اور ورکنگ گروپس کے مضبوط لائحہ عمل (میکانزم) کی بدولت سہولت فراہم کرنے والا تبدیلی کا یہ سفر باہمی ترقی اور مشترکہ خوشحالی کے عزم کی گہرائی اُور اِس سے متعلق سنجیدگی کو اجاگر کرتا ہے۔ اب جبکہ پاکستان اور چین ہر دن بے مثال دوستی اور تعاون کا نیا بیانیہ تحریر کر رہے ہیں‘ تو اِن کی پائیدار شراکت داری امید کی کرن کے طور پر کام کر رہی ہے‘ جو پہلے سے زیادہ ہم آہنگ اُور پہلے سے زیادہ عالمی برادری کی توجہات پر مبنی ہے۔
چین کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات وقت کی ہر آزمائش پر پورا اُترے ہیں اُور کثیر الجہتی جہتوں کے ساتھ یہ ایک مضبوط اتحاد کی شکل اِختیار کر چکے ہیں۔ پاکستان عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کرنے والے پہلے چند ممالک میں شامل تھا اُور وقت کے ساتھ اِن کے تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوئے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران‘ ان کی شراکت داری علاقائی استحکام اور اقتصادی ترقی کی بنیاد اُور علامت بن گئی ہے۔ ابتدائی برسوں میں‘ دونوں ممالک نے مشترکہ خطرات اور چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی بنیاد پر دوستی قائم کی تھی۔ جوں جوں جغرافیائی سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوا‘ اِن کے اتحاد نے ہمسایہ ملک بھارت کے اثر و رسوخ کم کرنے کا کام بھی کیا۔ مزید برآں چین کی جانب سے پاکستان کے انفراسٹرکچر میں خاطر خواہ سرمایہ کاری بشمول سی پیک نے نہ صرف پاکستان کی معاشی ترقی کو فروغ دیا ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی کیا اُور دونوں قوموں کے درمیان تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ‘ پاک چین تعاون اقتصادی منصوبوں سے بڑھ کر دفاعی اور سیکورٹی تعاون تک پھیل گیا۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور علاقائی سلامتی یقینی بنانے کے مشترکہ عزائم کے ساتھ‘ چین اور پاکستان انٹیلی جنس کے تبادلے اور عسکری تعاون و تبادلوں میں مصروف ہیں۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) میں پاکستان کا اہم کردار اِس شراکت داری کو مزید مستحکم کرنے کا باعث ہے اور سی پیک اِس پرجوش کوشش کے تحت ’فلیگ شپ منصوبے‘ کے طور پر ابھرکر سامنے آیا ہے۔ پاکستان اُور چین کی دوستی دوطرفہ مفادات سے بالاتر ہے اور یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی فورمز پر غیر متزلزل سفارتی حمایت کا اظہار بھی ہے۔ چین اور پاکستان ہر مشکل وقت میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں اور اعتماد و احترام اور باہمی فائدے کے بندھن پر قائم ہیں۔ عالمی سیاست کی پیچیدگیوں سے نبرد آزما ہونے کے باوجود چین اور پاکستان کے تعلقات بدلتی ہوئی دنیا میں اِستحکام و تعاون کی علامت ہیں۔
٭: …. سال 1949: عوامی جمہوریہ چین کا قیام عمل میں آیا۔
٭: …. سال 1950: پاکستان عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کرنے والے پہلے ممالک میں شامل ہوا۔
٭: …. 1951: پاکستان اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات کا باضابطہ آغاز ہوا۔
٭: …. 1962: پاک چین جنگ نے چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو مضبوط کیا کیونکہ پاکستان نے اس تنازعے کے دوران چین کی غیرمشروط حمایت کی۔
٭: …. 1963: پاک چین معاہدے پر دستخط ہوئے۔
٭: …. 1971: بنگلہ دیش کے قیام کی جنگ کے دوران چین نے پاکستان کی حمایت کی‘ جس سے دوطرفہ تعلقات مزید مضبوط ہوئے۔
٭: …. 1978: چین کی اصلاحاتی پالیسیوں کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعاون میں اضافہ ہوا۔
٭: …. 2013ءچین نے سی پیک منصوبے کا اعلان کیا جس سے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون میں اضافہ ہوا۔
٭: …. 2024ء: چین اور پاکستان سفارتی تعلقات کے قیام کی 73ویں سالگرہ منا رہے ہیں‘ جس سے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط اور پائیدار دوستی کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔
پاکستان اُور چین کے درمیان دوستی کا یہ سنگ میل دونوں ممالک کی قیادت کے درمیان پائی جانے والی ذہنی ہم آہنگی اُور قربت کو اجاگر کر رہا ہے۔ قابل ذکر ہے پاک چین تعلقات میں مزید پیش رفت میں جاری فوجی تعاون‘ ثقافتی تبادلے اُور معاشی تعاون شامل ہیں۔ اگر ہم ’سی پیک‘ کا جائزہ لیں جو کہ ’فلیگ شپ منصوبہ‘ ہے تو اِس کا بنیادی مقصد تجارتی رابطے بڑھانا اور معاشی ترقی کو فروغ دینا ہے‘ جو پاکستان کے نکتہ¿ نظر سے انتہائی اہم و ضروری ہے۔ دونوں ممالک مضبوط اسٹریٹجک شراکت داری کو برقرار رکھتے ہوئے مختلف بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر ایک دوسرے کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عوامی سطح پر تبادلے‘ تعلیمی تعاون اور علاقائی و عالمی مسائل پر باہمی تعاون پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا باعث بنا ہوا ہے۔ اگر جنوبی ایشیا اور اس سے آگے کے وسیع تر تناظر کو دیکھا جائے تو علاقائی استحکام اور اقتصادی ترقی کے لئے دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور چین کے سفارتی تعلقات کثیر الجہتی شراکت داری کی شکل اختیار کر چکے ہیں جس کے کئی اہم پہلو اِن پائیدار تعلقات کے فروغ کا باعث ہیں۔ سب سے پہلے تو ان کی اسٹریٹجک شراکت داری علاقائی استحکام کے لئے ایک بنیاد کے طور پر دیکھی جاتی ہے‘ دونوں ممالک سلامتی‘ دفاع اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں ایک دوسرے سے قریبی تعاون کر رہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اقتصادی تعاون پاک چین تعلقات کی بنیاد ہے۔ چین پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں خاص طور پر ’سی پیک‘ کے ذریعے غیرمعمولی سرمایہ کار کے طور پر ابھرا ہے۔ مزید برآں‘ دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون پہلے سے زیادہ مضبوط ہے اُور اِس میں مشترکہ فوجی مشقیں‘ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور دفاعی تعاون جیسے امور شامل ہیں۔ سفارتی طور پر چین مختلف بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر پاکستان کی مسلسل حمایت کرتا رہتا ہے جبکہ پاکستان باہمی دلچسپی کے معاملات میں چین کے مو¿قف سے خود کو جوڑے ہوئے ہے۔ حرف آخر یہ ہے کہ عوامی سطح پر تعلقات ہوں یا ثقافتی تبادلے‘ تعلیمی شعبے میں تعاون ہو یا سیاحت کا فروغ چین ہر لحاظ سے سخاوت کا مظاہرہ کر رہا ہے اُور وقت ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان عوام سے عوام کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنایا جائے۔
رواں ماہ پاکستان اور چین اپنے سفارتی تعلقات کی 73ویں سالگرہ منا رہے ہیں‘ جس کا 5 پہلوو¿ں سے جائزہ لیا جانا چاہئے۔ ایک پہلو تو یہ ہے کہ اِس دوستی کی گہرائی اُور مستقبل روز روشن کی طرح عیاں ہے جس سے خطے کا ایک جغرافیائی سیاسی منظر نامہ تشکیل پا رہا ہے۔ یہ تعلقات محض اسٹریٹجک تعاون سے کئی گنا بڑھ کر ہیں‘ جو گہری دوستی کا مظہر ہیں اُور جنہوں نے وقت کے ہر امتحان کو پورا کیا ہے اُور یہ دوطرفہ مفادات کے تحفظ کا ایک مضبوط لائحہ عمل بن کر اُبھرا ہے۔ پاک چین اُور چین پاکستان شراکت داری خطے میں امن و استحکام اُور خوشحالی کو فروغ دینے کے مشترکہ عزم کی علامت و اظہار بھی ہے۔ یہ ’تعلق (بانڈ)‘ دوطرفہ مفادات سے بڑھ کر ہے اُور یہ مختلف بین الاقوامی فورمز پر مضبوط سفارتی عزم و حمایت کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ چاہے وہ اہم مسائل پر ایک دوسرے کے مو¿قف کی وکالت ہوں یا عالمی چیلنجوں سے نمٹنے میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونا ہو‘ دونوں ممالک یک جہتی اور تعاون کے حقیقی جوہر کو مثالی انداز میں پیش کر رہے ہیں۔
پاکستان اور چین کے درمیان دوستی اعتماد و احترام اور باہمی فائدے کی بنیاد اجتماعی ترقی کے لئے اپنی اپنی طاقت اور وسائل سے فائدہ اٹھانے کی تعبیرات ہیں۔ ’بی آر آئی‘ اُور ’سی پیک‘ جیسے بنیادی ڈھانچے کے ترقیاتی منصوبوں سے لے کر مشترکہ فوجی مشقوں تک‘ اِن ممالک کا تعاون باہمی دلچسپی کے مختلف شعبوں کا احاطہ کر رہا ہے۔ ایک مسلسل بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظرنامے میں چین اور پاکستان کے درمیان پائیدار دوستی و استحکام اُور تعاون کے لئے مشعل راہ کا کام کرتی ہے چونکہ دونوں ممالک پیچیدہ عالمی چیلنجوں اور مواقع سے نبرد آزما ہیں‘ یہ ایک دوسرے کے ساتھ ان کی مشترکہ وابستگی بین الاقوامی سیاست کے دائرے میں حقیقی تعلقات کے فروغ کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ چین اور پاکستان نے ہر مشکل وقت میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر دنیا کے لئے ’قابل ستائش مثال‘ قائم کی ہے کہ کس طرح حقیقی دوستی سرحدوں کو پار کر سکتی ہے اور کس طرح ممالک ایک دوسرے سے زیادہ ہم آہنگ ہو کر عالمی امن و سلامتی اُور مشترکہ ترقی میں اپنا اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جب ہم سات دہائیوں پر محیط پاک چین سفارتی تعلقات کے قابل ذکر سفر پر غور کرتے ہیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلق صرف جغرافیہ یا مشترکہ مفادات کی بنیاد پر نہیں بلکہ دوستی اور تعاون کے پائیدار جذبے سے مبنی ہے۔ پانچ ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل سرحد کے ساتھ‘ ان کے تعلقات طاقتور ہمالیہ سے بھی بلند ہیں‘ جو ان کی شراکت داری کی طاقت اور لچک کی علامت ہیں۔
شہد کی مٹھاس کی طرح ان کے تعلقات سرحدوں اور ثقافتی اختلافات سے بالاتر گرمجوشی اور خلوص سے بھرے ہوئے ہیں جیسا کہ پاک چین تعلقات کو بطور کہاوت ”آئرن برادرز“ قرار دیا جاتا ہے تو حقیقت میں بھی ان ممالک کے درمیان رشتہ اٹوٹ دکھائی دیتا ہے‘ اور ایک دوسرے کے ساتھ ان کی وابستگی غیر متزلزل و غیرمشروط تعاون پر مبنی ہے۔ پاکستان اور چین ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں اور ان کی دوستی ہمیشہ قائم رہے گی جو آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کی تشکیل میں حقیقی بھائی چارے کی علامت اُور طاقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
….
(مضمون نگار خارجہ امور کے مبصر اور پاکستان چین فرینڈشپ ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا شاخ کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ ان سے بذریعہ ای میل syeed.gilani@gmail.com رابطہ کیا جا سکتا ہے۔)
….